شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا
دلوں کی بات ہے کم حوصلہ اچھا نہیں لگتا
نمی آنکھوں میں سوز دل کا عنوان تکلم ہے
مگر خاموش اشکوں کا صلہ اچھا نہیں لگتا
ادھر آنا نہ جانا ہی ادھر گم کردہ راہی ہے
تذبذب کا مجھے یہ مرحلہ اچھا نہیں لگتا
مسرت اور غم دونوں کی کوئی حد ضروری ہے
کسی بھی ایک شے کا سلسلہ اچھا نہیں لگتا
برا لگتا ہے ہم کو اک تناسب کا بگڑ جانا
کچھ ایسے لوگ ہیں جن کو بھلا اچھا نہیں لگتا
عتیقؔ ایسا بھی جینا کوئی جینا ہے بھلا آخر
نہ ہووے جس میں جوش و ولولہ اچھا نہیں لگتا
غزل
شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا
عتیق اثر