شمع روشن جسم فانوس خیالی میں ہے آج
روح جوں مثل مگس مکڑوں کی جالی میں آج
ہم نہیں ہرگز حباب بحر امکاں دہر میں
صانع کونین شکل بے مثالی میں ہے آج
کعبۂ دل عرش ہے ہر دم جہاں رہتا ہوں میں
میری پہچانت یہ جسم لا یزالی میں ہے آج
نام سن کر جو کوئی آیا ہے وہ پایا ہمیں
اسم اعظم کی صفت اس اسم عالی میں ہے آج
جنت الفردوس میں جا کر بھلا ہم کیا کریں
کوئی بھی اس خانۂ ویران و خالی میں ہے آج
حور و غلمان بہشتی یاں مرے ہمراہ ہیں
ملک دل آباد اپنے حسب حالی میں ہے آج
نیک و بد یکساں ہے واجب میں یہاں امکان میں
چاہئے راحت تو مسکیںؔ خوش خصالی میں ہے آج

غزل
شمع روشن جسم فانوس خیالی میں ہے آج
مسکین شاہ