شیخ کا خوف ہمیں حشر کا دھڑکا ہم کو
ساتھ ہی عشق کے آزار نے مارا ہم کو
موت کہتے ہیں جسے ضبط کا یہ خبط نہ ہو
زندگی پر بھی ہے فریاد کا دھوکا ہم کو
جاؤ ہاں جاؤ رقیبوں کی مرادیں بر لاؤ
رہنے دو رہنے دو ناکام تمنا ہم کو
ہم تو انسان ہیں اے خضر ہمیں مرنا ہے
جینے دیتا نہیں فطرت کا تقاضا ہم کو
ہے ابھی دور بہت دور ہماری منزل
حکم ہے فرش سے تا عرش معلیٰ ہم کو
وہ نگہ باندھ گئی دل میں طلسم امید
نظر آتی ہے تمنا ہی تمنا ہم کو
شہر الفت میں نہیں تفرقہ پرداز حفیظؔ
کہیں کعبہ نظر آیا نہ کلیسا ہم کو
غزل
شیخ کا خوف ہمیں حشر کا دھڑکا ہم کو
حفیظ جالندھری