شیخ حرم اس بت کا پرستار ہوا ہے
بت خانہ نشیں باندھ کے زنار ہوا ہے
ہر حرف پہ دو آنسو ٹپک پڑتے ہیں اے وائے
خط یار کو لکھنا ہمیں دشوار ہوا ہے
کوتہ نہ سمجھ آہ ضعیفان کو یہ تیر
سو بار دل عرش سے بھی پار ہوا ہے
اے صید فگن غم سے ترے دوری کہ میرا
ہر زخم دل اک دیدۂ خوں بار ہوا ہے
ہستی تری پردہ ہے اٹھا دے اسے غافل
کیوں ایسا حجاب رخ دل دار ہوا ہے
آگے ترے تھی گرم سخن ہونے کی حسرت
سو بھرنا دم سرد بھی دشوار ہوا ہے
کر قدر تو راسخؔ کی کہ اس طرح کا آزاد
یوں دام میں آ تیرے گرفتار ہوا ہے
غزل
شیخ حرم اس بت کا پرستار ہوا ہے
راسخ عظیم آبادی