شہر میں پھرتا ہے وہ مے خوار مست
کیوں نہ ہو ہر کوچہ و بازار مست
ہو گئی اس کا قد و رخسار دیکھ
سرو قمری بلبل و گل زار مست
زاہدو اٹھ جاؤ مجلس سے کہ آج
بے طرح آتا ہے وہ مے خوار مست
جس کے گھر جاتا ہے وہ دارو پیے
ہو ہے اس گھر کے در و دیوار مست
سر کو قدموں پر دھر اس کے لوٹیے
رات کو آئے اگر وہ یار مست
مے کشو حاتمؔ کو متوالا کہو
ایسا ہم دیکھا نہیں ہشیار مست
غزل
شہر میں پھرتا ہے وہ مے خوار مست
شیخ ظہور الدین حاتم