شہر طرب میں آج عجب حادثہ ہوا
ہنستے میں اس کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑا
حیران ہو کے سوچ رہا تھا کہ کیا کہوں
اک شخص مجھ سے میرا پتہ پوچھنے لگا
ہالہ نہیں ہے آتش فرقت کی آنچ ہے
تارا نہ تھا تو چاند کا پہلو سلگ اٹھا
اب یاد بھی نہیں کہ شکایت تھی ان سے کیا
بس اک خیال ذہن کے گوشے میں رہ گیا
کتنے ہی تارے ٹوٹ کے دامن میں آ گرے
جب چودھویں کا چاند گھٹاؤں میں جا چھپا
باد خزاں چمن سے شبستاں تک آ گئی
تکیے کا سرخ پھول بھی مرجھا کے رہ گیا
سوچا تھا اس سے دور کہیں جا بسیں گے ہم
لیکن سروشؔ ہم سے پشاور نہ چھٹ سکا
غزل
شہر طرب میں آج عجب حادثہ ہوا
حامد سروش