EN हिंदी
شہر جنوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا | شیح شیری
shahr-e-junun mein kal talak jo bhi tha sab badal gaya

غزل

شہر جنوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا

شہریار

;

شہر جنوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا
مرنے کی خو نہیں رہی جینے کا ڈھب بدل گیا

پل میں ہوا مٹا گئی سارے نقوش نور کے
دیکھا ذرا سی دیر میں منظر شب بدل گیا

میری پرانی عرض پر غور کیا نہ جائے گا
یوں ہے کہ اس کی بزم میں طرز طلب بدل گیا

ساعت خوب وصل کی آنی تھی آ نہیں سکی
وہ بھی تو وہ نہیں رہا میں بھی تو اب بدل گیا

دوری کی داستان میں یہ بھی کہیں پہ درج ہو
تشنہ لبی تو ہے وہی چشمۂ لب بدل گیا

میرے سوا ہر ایک سے دنیا یہ پوچھتی رہی
مجھ سا جو ایک شخص تھا پتھر میں کب بدل گیا