شہر میں رنگ ہے نہ خوشبو ہے
پھر بھی چرچا اسی کا ہر سو ہے
بہہ رہا ہے مہیب سناٹا
پا بہ گل سبزۂ لب جو ہے
گھپ اندھیرے کا جل رہا ہے چراغ
روشنی کا عجیب جادو ہے
بے دلی ہے نصیب دام خیال
آرزو اک رمیدہ آہو ہے
سینۂ سنگ پر ٹھٹھرتا ہوا
شاخ گل کا گداز پہلو ہے
شدت کرب سے نڈھال نہیں
آنکھ میں جم گیا جو آنسو ہے
ایک ذرہ نہیں جو مل جائے
اور بپا محشر تگاپو ہے
درد نے بڑھ کے آشکار کیا
موت پر زندگی کا قابو ہے
مجھ کو دیکھیں نظرؔ جو کہتے ہیں
آدمی، آدمی کا دارو ہے

غزل
شہر میں رنگ ہے نہ خوشبو ہے
قیوم نظر