EN हिंदी
شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے | شیح شیری
shab-e-visal lagaya jo un ko sine se

غزل

شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے

حفیظ جونپوری

;

شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے
تو ہنس کے بولے الگ بیٹھیے قرینے سے

ثواب ہو کہ نہ ہو اس سے کیا غرض زاہد
مزہ ملا مجھے تجھ کو پلا کے پینے سے

شب فراق یہ احسان ہے تصور کا
کہ سو رہا ہوں لگا کر کسی کو سینے سے

فلک مٹائے گا مجھ کو جو تم مکدر ہو
عداوت اس کی بڑھے گی تمہارے کینے سے

غم فراق میں کیا لطف زندگی ہے حفیظؔ
ہمیں تو موت ہی بہتر ہے ایسے جینے سے