شب سیاہ سے نکلے گا ماہتاب کوئی
افق میں دیکھتے رہیے گا روز خواب کوئی
جواب ڈھونڈ کے سارے جہاں سے جب لوٹے
ہمیں تو کر گیا یک لخت لا جواب کوئی
چمن سے نکلے ہیں اک پھول توڑ کر ہم بھی
لہولہان سے ہاتھوں میں ہے گلاب کوئی
ملیں تو کیسے ملیں جائیں تو کہاں جائیں
کہ کر رہا ہے بہت ہم سے اجتناب کوئی
بکھیرتے ہوئے سونا زمیں میں چاروں طرف
ابھر رہا ہے سمندر سے آفتاب کوئی
مامونؔ چاروں طرف میرے اب اندھیرا ہے
ابھر کے ڈوب گیا مجھ میں آفتاب کوئی
غزل
شب سیاہ سے نکلے گا ماہتاب کوئی
خلیل مامون