شام ہوتی ہے تو یاد آتی ہے ساری باتیں
وہ دوپہروں کی خموشی وہ ہماری باتیں
آنکھیں کھولوں تو دکھائی نہیں دیتا کوئی
بند کرتا ہوں تو ہو جاتی ہیں جاری باتیں
کبھی اک حرف نکلتا نہیں منہ سے میرے
کبھی اک سانس میں کر جاتا ہوں ساری باتیں
جانے کس خاک میں پوشیدہ ہیں آنسو میرے
کن فضاؤں میں معلق ہیں تمہاری باتیں
کس ملاقات کی امید لیے بیٹھا ہوں
میں نے کس دن پہ اٹھا رکھی ہیں ساری باتیں
غزل
شام ہوتی ہے تو یاد آتی ہے ساری باتیں
احمد مشتاق