سواد شام پہ سورج اترنے والا ہے
ٹھہر بھی جا کہ یہ منظر ابھرنے والا ہے
ملیں گے داغ ستارے چراغ و شبنم بھی
غموں کی رات کا چہرہ نکھرنے والا ہے
چلو جلوس کی صورت میں زندگی والو
ذرا سی دیر میں لمحہ گزرنے والا ہے
کوئی تو دہر میں زندہ رہے خداوندا
ترے جہان میں انسان مرنے والا ہے
وہ اپنی ذات کے منشور کے تناظر میں
اک اہتمام سے اعلان کرنے والا ہے
نثارؔ زیست کے دوزخ میں جی رہا ہے مگر
وہ اپنی آگ کے شعلوں سے ڈرنے والا ہے

غزل
سواد شام پہ سورج اترنے والا ہے
رشید نثار