سودائے عشق کے تو خطاوار ہم نہیں
ہیں عشق کے مریض گنہ گار ہم نہیں
ہم جو کھٹک رہے تھے تمہاری نگاہ میں
لو اب تمہاری راہ میں دیوار ہم نہیں
اس کی خوشی کے واسطے خود کو فنا کیا
پھر بھی وہ کہہ رہا ہے وفادار ہم نہیں
دل میں ہمارے ایک تلاطم سا ہے بپا
خاموش ہیں کہ زینت اخبار ہم نہیں
تنہائیوں کی ہم نے ہی دنیا بسائی ہے
گوشے میں خود کے ہیں سر بازار ہم نہیں
صحرا کے گرد و گرم ہی اب راس آ گئے
سیماؔ کسی چمن کے روادار ہم نہیں

غزل
سودائے عشق کے تو خطاوار ہم نہیں
سیما گپتا