سو رہا تھا تو شور برپا تھا
اٹھ کے دیکھا تو میں اکیلا تھا
خاک پر میرے خواب بکھرے تھے
اور میں ریزہ ریزہ چنتا تھا
چار جانب وجود کی دیوار
اپنی آواز میں ہی سنتا تھا
عمر بھر بوند بوند کو ترسے
سامنے گھر کے ایک دریا تھا
لب دریا کھڑے رہے دونوں
وہ بھی پیاسا تھا میں بھی پیاسا تھا

غزل
سو رہا تھا تو شور برپا تھا
رضی ترمذی