EN हिंदी
سرحد فنا تک بھی تیرگی نہیں آئی | شیح شیری
sarhad-e-fana tak bhi tirgi nahin aai

غزل

سرحد فنا تک بھی تیرگی نہیں آئی

سلام ؔمچھلی شہری

;

سرحد فنا تک بھی تیرگی نہیں آئی
یوں بھی راس اندھیروں کی زندگی نہیں آئی

تم شراب پی کر بھی ہوش مند رہتے ہو
جانے کیوں مجھے ایسی مے کشی نہیں آئی

جس کی بھی تباہی ہو کچھ اثر تو رکھتی ہے
آج میری حالت پر کیوں ہنسی نہیں آئی

اور بھی درخشاں ہو اے مرے نئے سورج
اب بھی میرے آنگن میں روشنی نہیں آئی

رہروان دانش کی زندگی بتاتی ہے
کام کن منازل میں آگہی نہیں آئی

لوگ چار ہی دن میں بن گئے سلامؔ اے دل
اور خود مجھے اب تک شاعری نہیں آئی