سنوارے ہے گیسو تو دیکھا کرے ہے
وہ اب دل کو آئینہ جانا کرے ہے
نہ باتیں کرے ہے نہ دیکھا کرے ہے
مگر میرے بارے میں سوچا کرے ہے
محبت سے وہ دشمنی ہے کہ دنیا
ہوا بھی لگے ہے تو چرچا کرے ہے
تمہاری طرح بے وفا کون ہوگا
ہمیں وقت اب تک پکارا کرے ہے
گزرتے تو ہم بھی ہیں اس کی گلی سے
سنا ہے وہ چھپ چھپ کے دیکھا کرے ہے
اک آتی ہے منزل کہ ہر حسن والا
تمنائیوں کی تمنا کرے ہے
وہاں لا کے چھوڑا ہے اس نے کہ انساں
جہاں زہر کھانا گوارا کرے ہے
گلے کرتے پھریے کہ دیوانہ بنیے
پڑی ہے وہ ایسوں کی پروا کرے ہے
جو غنچہ سر شام چٹکے تو سمجھو
کسی پر وفا کا تقاضا کرے ہے
کسی نے انہیں یہ سجھا دی کہ محشرؔ
تمہیں شعر کہہ کہہ کے رسوا کرے ہے
غزل
سنوارے ہے گیسو تو دیکھا کرے ہے
محشر عنایتی