سناٹوں کے جنگل میں کھوئی ہوئی خوشبو تھی
آہٹ جو سنی کوئی سہمی ہوئی خوشبو تھی
اس گھر میں گلابوں سے کچھ راگ مہکتے تھے
ماحول میں جادو تھا گاتی ہوئی خوشبو تھی
گفتار میں پھولوں کی برسات کا عالم تھا
پہنا ہوا گلشن تھا اوڑھی ہوئی خوشبو تھی
ڈالی سے کوئی موسم جیوں ٹوٹ کے گر جائے
بے ربط ہواؤں میں اڑتی ہوئی خوشبو تھی
تم نے کبھی سوچا ہے تم نے کبھی جانا ہے
کہتے ہیں تپشؔ جس کو بکھری ہوئی خوشبو تھی
غزل
سناٹوں کے جنگل میں کھوئی ہوئی خوشبو تھی
مونی گوپال تپش