سنگ چہرہ نما تو میں بھی ہوں
دیکھیے آئنہ تو میں بھی ہوں
بیعت حسن کی ہے میں نے بھی
صاحب سلسلہ تو میں بھی ہوں
مجھ پہ ہنستا ہے کیوں ستارۂ صبح
رات بھر جاگتا تو میں بھی ہوں
کون پہنچا ہے دشت امکاں تک
ویسے پہنچا ہوا تو میں بھی ہوں
آئینہ ہے سبھی کی کمزوری
تم ہی کیا خود نما تو میں بھی ہوں
میرا دشمن ہے دوسرا ہر شخص
اور وہ دوسرا تو میں بھی ہوں
غزل
سنگ چہرہ نما تو میں بھی ہوں
شبنم رومانی