سمندر سے کسی لمحے بھی طغیانی نہیں جاتی
مگر ساحل کو غم ہے خشک دامانی نہیں جاتی
غنیمت ہے مری آنکھوں کی یہ سیال آتش بھی
اسی سے میرے ذہن و دل کی تابانی نہیں جاتی
سوا نیزے پہ سورج دیر تک رکنے نہیں پاتا
مگر کیا ہے کہ تیری شعلہ افشانی نہیں جاتی
صدائے خامشی دیتی ہے اب دستک در دل پر
نہ جانے کیوں ہمارے گھر سے ویرانی نہیں جاتی
رہا ہو کر بھی کچھ طائر قفس میں لوٹ آتے ہیں
فضائے قید کی عادت بہ آسانی نہیں جاتی
تمدن کا نیا جامہ بہت شفاف ہے یارو
کہ تن پوشی کرو کتنی ہی عریانی نہیں جاتی
جتن سارے ہی کرتا ہوں مگر کیا کیجیئے ارشدؔ
مری خودداریٔ فطرت ہے دیوانی نہیں جاتی

غزل
سمندر سے کسی لمحے بھی طغیانی نہیں جاتی
ارشد کمال