سمیٹ کر ترے جلووں کی روشنی میں نے
دل و نگاہ کی دنیا سنوار لی میں نے
مزاج حسن کسی طور سے بدل نہ سکا
گوارا سمجھا غم ناگوار بھی میں نے
تمام سختیاں راہ طلب کی سہل ہوئیں
تمہارے نام کی تسبیح جب پڑھی میں نے
تمہارا عشق ہوا ہے کئی غموں کا سبب
کہ اک جہاں کی خریدی ہے دشمنی میں نے
نقوش پا پہ جبیں عین بے خودی میں رہی
بھلائے کب بھلا آداب عاشقی میں نے
یہ کون دے گیا مجھ کو سکون قلب و نظر
یہ کس کا نام لیا تھا ابھی ابھی میں نے
مری حیات دو روزہ کا کیا بری کہ بھلی
گزارنی پڑی جوہرؔ گزار دی میں نے

غزل
سمیٹ کر ترے جلووں کی روشنی میں نے
جوہر زاہری