سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے
ترے بدن کا فسوں بھی شراب جیسا ہے
ہنسے وہ لاکھ مگر ضبط غم کی تحریریں
نہ چھپ سکیں گی کہ چہرہ کتاب جیسا ہے
ملے گا پاس سے کچھ بھی نہ خاک و خوں کے سوا
پلٹ چلیں کہ یہ منظر سراب جیسا ہے
نہ کوئی پیڑ نہ سایہ نہ آہٹوں کا گماں
یہ جستجو کا سفر بھی عذاب جیسا ہے
وہ سامنے ہے مگر اس کو چھو نہیں سکتا
میں پوجتا ہوں وہ پیکر جو خواب جیسا ہے
سلگ رہے ہو یونہی غم کی دھوپ سے راشدؔ
وہ ہاتھ چوم کے دیکھو گلاب جیسا ہے

غزل
سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے
ممتاز راشد