EN हिंदी
سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے | شیح شیری
sakun mila hai magar iztirab jaisa hai

غزل

سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے

ممتاز راشد

;

سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے
ترے بدن کا فسوں بھی شراب جیسا ہے

ہنسے وہ لاکھ مگر ضبط غم کی تحریریں
نہ چھپ سکیں گی کہ چہرہ کتاب جیسا ہے

ملے گا پاس سے کچھ بھی نہ خاک و خوں کے سوا
پلٹ چلیں کہ یہ منظر سراب جیسا ہے

نہ کوئی پیڑ نہ سایہ نہ آہٹوں کا گماں
یہ جستجو کا سفر بھی عذاب جیسا ہے

وہ سامنے ہے مگر اس کو چھو نہیں سکتا
میں پوجتا ہوں وہ پیکر جو خواب جیسا ہے

سلگ رہے ہو یونہی غم کی دھوپ سے راشدؔ
وہ ہاتھ چوم کے دیکھو گلاب جیسا ہے