سیل خوں پیکر اشعار میں ڈھلتا ہی نہیں
غم وہ لاوا ہے جو سینے سے ابلتا ہی نہیں
آئنہ لاکھ مگر ایک سی تصویریں ہیں
کس کو دیکھوں میں کوئی شکل بدلتا ہی نہیں
جو بھٹکتا تھا کبھی دھوپ کے صحراؤں میں
اب وہ سایہ مری چوکھٹ سے نکلتا ہی نہیں
کوئی تحریر مٹائیں تو دھواں اٹھتا ہے
دل وہ بھیگا ہوا کاغذ ہے کہ جلتا ہی نہیں
مجھ سے منہ پھیرنے والے مری قیمت پہچان
میں وہ سکہ ہوں جو بازار میں چلتا ہی نہیں
کون چھینے گا مری سوچ کی دولت راشدؔ
جسم کا بوجھ تو لوگوں سے سنبھلتا ہی نہیں

غزل
سیل خوں پیکر اشعار میں ڈھلتا ہی نہیں
ممتاز راشد