EN हिंदी
سیل خوں پیکر اشعار میں ڈھلتا ہی نہیں | شیح شیری
sail-e-KHun paikar-e-ashaar mein Dhalta hi nahin

غزل

سیل خوں پیکر اشعار میں ڈھلتا ہی نہیں

ممتاز راشد

;

سیل خوں پیکر اشعار میں ڈھلتا ہی نہیں
غم وہ لاوا ہے جو سینے سے ابلتا ہی نہیں

آئنہ لاکھ مگر ایک سی تصویریں ہیں
کس کو دیکھوں میں کوئی شکل بدلتا ہی نہیں

جو بھٹکتا تھا کبھی دھوپ کے صحراؤں میں
اب وہ سایہ مری چوکھٹ سے نکلتا ہی نہیں

کوئی تحریر مٹائیں تو دھواں اٹھتا ہے
دل وہ بھیگا ہوا کاغذ ہے کہ جلتا ہی نہیں

مجھ سے منہ پھیرنے والے مری قیمت پہچان
میں وہ سکہ ہوں جو بازار میں چلتا ہی نہیں

کون چھینے گا مری سوچ کی دولت راشدؔ
جسم کا بوجھ تو لوگوں سے سنبھلتا ہی نہیں