صحراؤں میں جا پہنچی ہے شہروں سے نکل کر
الفاظ کی خوشبو مرے ہونٹوں سے نکل کر
سینے کو مرے کر گیا اک آن میں روشن
اک نور کا کوندا تری آنکھوں سے نکل کر
میں قطرۂ شبنم تھا مگر آج ہوں سورج
آ بیٹھا ہوں میں صدیوں میں لمحوں سے نکل کر
ہو جائیں گے بستی کے در و بام منور
سورج ابھی چمکے گا دریچوں سے نکل کر
کیا جانیے اب کون سی جانب کو گیا ہے
اک زرد سا چہرہ تری گلیوں سے نکل کر
ہر سمت تھا اک تلخ حقائق کا سمندر
دیکھا جو تصور کے جزیروں سے نکل کر
وہ پیاس ہے مٹی پہ زباں پھیر رہے ہیں
ہم آئے ہیں احساس کے شعلوں سے نکل کر
ہر آن صدا دیتے ہیں معصوم اجالے
بیتابؔ چلے آؤ دھندلکوں سے نکل کر
غزل
صحراؤں میں جا پہنچی ہے شہروں سے نکل کر
سلیم بیتاب