صحرا میں جو دیوانے سے باد صبا الجھی
ہر موج گل تر سے وہ زلف دوتا الجھی
الزام نہیں تجھ پر اے بادیہ پیمائی
دیوانے کی قسمت سے صحرا کی ہوا الجھی
پابند نزاکت تھی نیرنگئ گل چینی
سرخئ گل تر سے ہاتھوں کی حنا الجھی
یا حسن کشش میں جاں اور آپ نے ڈالی ہے
یا شوخئ فطرت ہے در پردہ حیا الجھی
خاموش تجلی کی فطرت میں سمجھتا ہوں
کیوں خرمن دل سے ہی اے برق ادا الجھی
دل میں تری یادوں نے وہ بجلیاں چمکائیں
آنکھوں سے مری آ کر ساون کی گھٹا الجھی
ضامن مری الجھن کے الجھے ہوئے گیسو ہیں
بے وجہ مری جنبشؔ کب طبع رسا الجھی

غزل
صحرا میں جو دیوانے سے باد صبا الجھی
جنبش خیرآبادی