سہمے نحیف دریا کے دھارے کی بات کر
اب دشت بے کراں کے کنارے کی بات کر
دنیا کے مسئلوں میں مجھے بھی شریک رکھ
میرے دریدہ دل کے بھی چارے کی بات کر
رہنے دے ذکر سود کسی اور وقت پر
راہ وفا میں میرے خسارے کی بات کر
معیار کے نہ مجھ کو کم و بیش میں پرکھ
تجھ کو اگر قبول ہوں سارے کی بات کر
ہم بوریا نشین ترے شاہ بھی تو ہیں
یا لوٹ جا یا ساتھ گزارے کی بات کر
اب آسمان سارا مری دسترس میں ہے
انگلی اٹھا کسی بھی ستارے کی بات کر

غزل
سہمے نحیف دریا کے دھارے کی بات کر
سلیم فگار