سحر انجان سی مغموم سا خواب وفا کیوں ہے
نہ جانے قربتوں کے نام سے یہ فاصلہ کیوں ہے
اندھیرے زہر برسانے لگے ہیں زندگانی پر
کسی کے پیار کا مہتاب ایسے میں خفا کیوں ہے
ذرا جب رات ڈھلتی ہے تو خوابوں کے جھروکے سے
حسیں مانوس شکلوں کا سویرا جھانکتا کیوں ہے
بہار آئی فضا مہکی خوشی نے ہاتھ پھیلائے
تو پھر یہ زندگی آوارۂ دشت وفا کیوں ہے
شب غم کٹ گئی لیکن اجالوں سے گلے مل کر
سحر کی آرزو اتنی سحر نا آشنا کیوں ہے
مرے انفاس سے آتی ہے خوشبوئے سحر کیسی
سکوت بام و در میں آج تیری ہی صدا کیوں ہے
کوئی دل سے نہیں گزرا تو ثاقبؔ کون بتلائے
کسی پازیب کی جھنکار سے دل گونجتا کیوں ہے

غزل
سحر انجان سی مغموم سا خواب وفا کیوں ہے
میر نقی علی خاں ثاقب