سفر میں رستہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
وہ شخص چہرہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
ہوئی ہے چشم شناسا بھی اجنبی تو کھلا
کہ آنکھ رشتہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
ہے آدھے شہر میں بارش تو آدھے شہر میں دھوپ
ہوا علاقہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
سنی سنائی پہ اک دم یقین مت کرنا
یہ خلق قصہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
اسی کے پاس حکومت ہے اب قبیلے کی
کہ جو قبیلہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
کسی کو پنجرہ بدلنے کا شوق ہے روحیؔ
کوئی پرندہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
غزل
سفر میں رستہ بدلنے کے فن سے واقف ہے
ریحانہ روحی