سفر زندگی نہیں آساں
ہر طرف راہ میں ہیں سنگ گراں
دور ہو جائیں دکھ زمانے کے
صاحب درد ہو اگر انساں
سوچنا پڑ گیا زمانے کو
مٹ کے بھی ہم نہ جب ہوئے ارزاں
تو اسے طنز کیوں سمجھتا ہے
میں تو حالات کر رہا ہوں بیاں
جی رہا ہوں کچھ اس طرح جیسے
آگ لگ جائے اور ہو نہ دھواں
تو مری بات کا جواب نہ دے
میں سمجھتا ہوں خامشی کی زباں
نکتہ چینی حسد دل آزاری
اور کیا ہے متاع بے ہنراں
مجھ کو اس کو تلاش ہے رفعتؔ
جو مرے دل میں ہے کہیں پنہاں
غزل
سفر زندگی نہیں آساں
رفعت سلطان