صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
پوچھے بھی کوئی تو چپ ہی رہیے
بے صبر ہی کہہ کے رک گئے کیوں
کہیے کہیے کچھ اور کہیے
آخر کب تک یہ بے نیازی
انصاف سے آپ ہی نہ کہیے
مر ہی جانے کی بات ہے یہ
میرے لیے آپ ظلم سہیے
آنکھوں میں غرور ہے کسی کا
کس طرح کسی سے دب کے رہیے
سننے کی جو بات ہو وہ سنیے
کہنے کی جو بات ہو وہ کہیے
رونے کو پڑی ہے عمر ساری
چھالوں کی طرح نہ پھوٹ بہیے
سنیے جو حفیظؔ کی مصیبت
رو دیجئے آپ میں نہ رہیے
غزل
صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
حفیظ جونپوری