صدمہ ہر چند ترے جور سے جاں پر آیا
تس پہ شکوہ نہ کبھی میری زباں پر آیا
راست کیشوں کی تف آہ سے ڈر اے سرکش
تیر پھرتا نہیں جس وقت نشاں پر آیا
موسم شیب میں بے فائدہ ہے لعب شباب
کب ثمر دیوے ہے جو نخل خزاں پر آیا
دل پر خوں کو مرے غنچۂ تصویر کی طرح
لب وا شد نہ کبھی راز نہاں پر آیا
چشم انجم پہ نہیں ابر سے وہ روز سیاہ
جو مرے دیدۂ خوں ناب چکاں پر آیا
رات کو دیکھ کے اے ماہ تجھے غیر کے ساتھ
طعنہ زن دل کا مرے گل کے کتاں پر آیا
ہو کے استاد دبستان سخن میں سوداؔ
شعر کے قاعدہ دانان جہاں پر آیا
غزل
صدمہ ہر چند ترے جور سے جاں پر آیا
محمد رفیع سودا