سچ ہے جب بھی کوئی حرف اس کی زباں سے نکلا
زہر میں ڈوبا ہوا تیر کماں سے نکلا
دور تک پھیل گیا حسن معانی کا طلسم
خوب مفہوم مرے لفظ و بیاں سے نکلا
میں ترے ترک تعلق سے بس اتنا سمجھا
ایک پتھر تھا جو شیشے کے مکاں سے نکلا
اک حقیقت پس افسانہ تھی روشن روشن
وہ جو کعبے کو گیا شہر بتاں سے نکلا
اس طرف دار کی منزل تھی ادھر کوچۂ یار
مجھ کو جانا تھا کہاں اور کہاں سے نکلا
منزل ذات ملی روح ہوئی آسودہ
سلسلہ تار نفس کا رگ جاں سے نکلا
بس کہ تھا پیش نظر حسن ازل کا جلوہ
نازؔ ہر کشمکش سود و زیاں سے نکلا
غزل
سچ ہے جب بھی کوئی حرف اس کی زباں سے نکلا
ناز قادری