EN हिंदी
سچ اگر پوچھو تو نا پیدا ہے یک رو آشنا | شیح شیری
sach agar puchho to na-paida hai yak-ru aashna

غزل

سچ اگر پوچھو تو نا پیدا ہے یک رو آشنا

شیخ ظہور الدین حاتم

;

سچ اگر پوچھو تو نا پیدا ہے یک رو آشنا
سارے عالم میں جو ہوں شاید تو یک دو آشنا

حاضر و غائب ہو یکساں ظاہر و باطن ہو صاف
اس طرح کا کم نظر آیا ہے یکسو آشنا

ہم وہ مخلص ہیں کہ آنکھیں دیکھتے گزری ہے عمر
جی نکل جاوے جو ہو ہم سے کج ابرو آشنا

سارے عالم سے کروں میں ترک رسم دوستی
مجھ سے ہووے اے مرے دشمن اگر تو آشنا

کس کے کوچے میں تو ہو نکلی تھی ہاں سچ کہہ نسیم
تجھ میں جو بو ہے سو ہے مدت سے یہ بو آشنا

جاں بہ لب ہوں میں تو ان یاروں کی خوش خلقی کو دیکھ
ہے معاذ اللہ جو ہو صحبت میں بد خو آشنا

ایک بھی ہم نے نہ دیکھا دوست حاتمؔ بعد مرگ
ہے تکلف بر طرف کو یار اور کو آشنا