صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
ترا خیال اگر دل کے روبرو نہ رہے
ترے بغیر ہر اک آرزو ادھوری ہے
جو تو ملے تو مجھے کوئی آرزو نہ رہے
ہے جستجو میں تری اک جہاں کا درد و نشاط
تو کیا عجب کہ کوئی اور جستجو نہ رہے
تری طلب سے عبارت ہے سوز و حیات
ہو سرد آتش ہستی جو دل میں تو نہ رہے
تو ذوق کم طلبی ہے تو آرزو کا شباب
ہے یوں کہ تو رہے اور کوئی جستجو نہ رہے
کتاب عمر کا ہر باب بے مزہ ہو جائے
جو درد میں نہ رہوں اور داغ تو نہ رہے
خدا کرے نہ وہ افتاد آ پڑے ہم پر
کہ جان و دل رہیں اور تیری آرزو نہ رہے
ترے خیال کی مے دل میں یوں اتاری ہے
کبھی شراب سے خالی مرا سبو نہ رہے
وہ دشت درد سہی تم سے واسطہ تو رہے
رہے یہ سایۂ گیسوئے مشک بو نہ رہے
کرو ہمارے ہی داغوں سے روشنی تم بھی
بڑا ہے درد کا رشتہ دوئی کی بو نہ رہے
نہیں قرار کی لذت سے آشنا یہ وجود
وہ خاک میری نہیں ہے جو کو بہ کو نہ رہے
اس التہاب میں کیسے غزل سرا ہو کوئی
کہ ساز دل نہ رہے خوئے نغمہ جو نہ رہے
سفر طویل ہے اس عمر شعلہ ساماں کا
وہ کیا کرے جسے جینے کی آرزو نہ رہے

غزل
صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
ساجدہ زیدی