صبا گلوں کی ہر اک پنکھڑی سنوارتی ہے
عجیب ڈھنگ سے یہ آرتی اتارتی ہے
افق پہ پھر ابھر آئے ہیں تیرگی کے نشیب
امید جیتی ہوئی دل کی بازی ہارتی ہے
لہک کے گزری ہے کچھ یوں مراد کی خوشبو
کہ روح پھر دل حساس کو پکارتی ہے
خموش شہر کی سنسان سرد راتوں میں
تمہاری یاد مرے ساتھ شب گزارتی ہے
چراغ حسرت و ارماں جلاؤ گے کیسے
ہوائے دہر تو رہ رہ کے پھونک مارتی ہے
سجائے ہیں بڑی مشکل سے رندؔ پلکوں پر
جنہیں تم اشک سمجھتے ہو دل کی آرتی ہے

غزل
صبا گلوں کی ہر اک پنکھڑی سنوارتی ہے
رند ساغری