سب عمر تو جاری نہیں رہتا ہے سفر بھی
آتا ہے کسی دن تو بشر لوٹ کے گھر بھی
منزل تو بڑی شے نہ ملی راہ گزر بھی
باندھا تھا بڑے شوق سے کیا رخت سفر بھی
اندر سے پھپھوندے ہوئے دیوار بھی در بھی
دیکھے ہیں بڑے لوگوں کے ہم نے بڑے گھر بھی
ہر سمت ہے ویرانی سی ویرانی کا عالم
اب گھر سا نظر آنے لگا ہے مرا گھر بھی
تنہائی پسند اتنا بھی مت بن یہ سمجھ لے
تنہائی میں ہے چین تو تنہائی میں ڈر بھی
پاگل ہے پتا پوچھ رہا ہے مرے گھر کا
کیا خانہ بدوشوں کا ہوا کرتا ہے گھر بھی
غزل
سب عمر تو جاری نہیں رہتا ہے سفر بھی
بسمل آغائی