سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا
موم کے شہر سے سورج کا گزر کب ہوگا
خواب کاغذ کے سفینے ہیں بچائیں کیسے
ختم اس آگ کے دریا کا سفر کب ہوگا
جس کا نقشہ ہے مرے ذہن میں اک مدت سے
گھر وہ تعمیر سے پہلے ہی کھنڈر کب ہوگا
میرے کھوئے ہوئے محور پہ جو پہنچائے مجھے
اب لہو میں مرے پیدا وہ بھنور کب ہوگا
سبز رکھا ہے جسے میں نے لہو دے کے قمرؔ
مہرباں دھوپ میں آخر وہ شجر کب ہوگا

غزل
سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہوگا
قمر اقبال