سب مجھے بے سر و پا کہتے ہیں
اے محبت اسے کیا کہتے ہیں
جو کچھ اس بت کو برہمن نے کہا
ہم کہیں اس سے سوا کہتے ہیں
میں جو روؤں اسے کہتے ہیں مرض
وہ ہنسے اس کو دوا کہتے ہیں
جھک کے قاتل کو مناسب ہے سلام
اس کو تسلیم و رضا کہتے ہیں
کیا ہوا کہیے جو اس بت کو خدا
لوگ بندوں کو خدا کہتے ہیں
کاتب آ جائے تو قاصد نہ ملے
اسے قسمت کا لکھا کہتے ہیں
رشکؔ سے بات بھی کرتے نہیں آپ
کہیے اس بات کو کیا کہتے ہیں
غزل
سب مجھے بے سر و پا کہتے ہیں
میر علی اوسط رشک