سب کی موجودگی سمجھتا ہے
دل کسی کی کمی سمجھتا ہے
ایک ہی شخص سے میں واقف ہوں
جو مجھے اجنبی سمجھتا ہے
گو مجھے جانتا نہیں لیکن
وہ مری شاعری سمجھتا ہے
وصل کے اشک ہجر کے آنسو
وہ نمی کو نمی سمجھتا ہے
وہی میری زباں سے ہے واقف
جو مری خامشی سمجھتا ہے
آپ کے سامنے میں خوش ہوں مگر
میرے دکھ رام ہی سمجھتا ہے
یہی اردو زباں کا ہے جادو
اب مجھے ہر کوئی سمجھتا ہے
میں اسے بات دل کی کہتا ہوں
وہ اسے شاعری سمجھتا ہے
اتنا نادان بھی نہیں ہے وہ
جو تمہاری ہنسی سمجھتا ہے
کون مہتابؔ اب تمہارا ہے
کون دل کی لگی سمجھتا ہے
غزل
سب کی موجودگی سمجھتا ہے
بشیر مہتاب