EN हिंदी
سب کی آنکھیں تو کھلی ہیں دیکھتا کوئی نہیں | شیح شیری
sab ki aankhen to khuli hain dekhta koi nahin

غزل

سب کی آنکھیں تو کھلی ہیں دیکھتا کوئی نہیں

رانا گنوری

;

سب کی آنکھیں تو کھلی ہیں دیکھتا کوئی نہیں
سانس سب کی چل رہی ہے جی رہا کوئی نہیں

میں سسکنے کی صدائیں سن رہا ہوں بار بار
آپ کہتے ہیں کہ گھر میں دوسرا کوئی نہیں

زندگانی نے لیے گو امتحاں در امتحاں
زندگانی سے مجھے پھر بھی گلہ کوئی نہیں

کوئی تو آخر چلاتا ہے نظام دو جہاں
کیسے ممکن ہے خدائی ہے خدا کوئی نہیں

میری ساری کوششوں کے کاوشوں کے باوجود
میرے سارے کام بگڑے ہیں بنا کوئی نہیں