EN हिंदी
سب کے لیے سوال یہ کب ہے کہ کیا نہ ہو | شیح شیری
sab ke liye sawal ye kab hai ki kya na ho

غزل

سب کے لیے سوال یہ کب ہے کہ کیا نہ ہو

رئیس رامپوری

;

سب کے لیے سوال یہ کب ہے کہ کیا نہ ہو
ان کو تو مجھ سے ضد ہے کہ میرا کہا نہ ہو

ان کو مرا وہ بزم میں چھپ چھپ کے دیکھنا
اور یہ بھی دیکھنا کہ کوئی دیکھتا نہ ہو

ہر اک سے پوچھتا بھی ہوں ان کا پتا مگر
دل یہ بھی چاہتا ہے کسی کو پتا نہ ہو