سب کے لیے سوال یہ کب ہے کہ کیا نہ ہو
ان کو تو مجھ سے ضد ہے کہ میرا کہا نہ ہو
ان کو مرا وہ بزم میں چھپ چھپ کے دیکھنا
اور یہ بھی دیکھنا کہ کوئی دیکھتا نہ ہو
ہر اک سے پوچھتا بھی ہوں ان کا پتا مگر
دل یہ بھی چاہتا ہے کسی کو پتا نہ ہو

غزل
سب کے لیے سوال یہ کب ہے کہ کیا نہ ہو
رئیس رامپوری