سایۂ زلف سیہ فام کہاں تک پہنچے
جانے یہ سلسلۂ شام کہاں تک پہنچے
دور افق پار سہی پا تو لیا ہے تجھ کو
دیکھ ہم لے کے ترا نام کہاں تک پہنچے
یہ سسکتی ہوئی راتیں یہ بلکتے منظر
ہم بھی اے سایۂ گلفام کہاں تک پہنچے
نہ کہیں سایۂ گل ہے نہ کہیں ذکر حبیب
اور اب گردش ایام کہاں تک پہنچے
ہم تو رسوا تھے مگر ان کی نظر بھی نہ بچی
ہم پہ آئے ہوئے الزام کہاں تک پہنچے
مطمئن گرمیٔ احساس جفا سے بھی نہیں
دل کو پہنچے بھی تو آرام کہاں تک پہنچے
ان کی آنکھوں کو دیئے تھے جو مری آنکھوں نے
کس سے پوچھوں کہ وہ پیغام کہاں تک پہنچے
غزل
سایۂ زلف سیہ فام کہاں تک پہنچے
قتیل شفائی