EN हिंदी
ساون کی پروائی نے کیا دکھتی چوٹ دکھائی ہے | شیح شیری
sawan ki purwai ne kya dukhti choT dikhai hai

غزل

ساون کی پروائی نے کیا دکھتی چوٹ دکھائی ہے

طالب باغپتی

;

ساون کی پروائی نے کیا دکھتی چوٹ دکھائی ہے
کیسے آنسو امڈے ہیں جب یاد تمہاری آئی ہے

آنکھ سے اوجھل ہو کر دل کو اپنی یاد دلائی ہے
دل ہی میں آ بیٹھے ہو یہ اور قیامت ڈھائی ہے

آہیں سرد ہوئی جاتی ہیں تم آئے ہو یا صبح ہوئی
چاند کی رنگت پھیکی ہے تاروں پہ اداسی چھائی ہے

اک سناٹا سا طاری ہے چار پہر کے تڑکے سے
خیر تو ہے یہ آج مریض ہجر نے کیا ٹھہرائی ہے

دنیا کا دستور یہی ہے دل یوں کب تک روئے گا
ان اچھی صورت والوں نے کس سے پیت نبھائی ہے

بادل چیخ اٹھا ہے بجلی ٹوٹ پڑی ہے تھرا کر
جب ہم نے اپنی برسی برسائی آنکھ اٹھائی ہے

جسم کے اندر دل کی بے چینی سے یہ معلوم ہوا
اس گھر میں سب چیزیں اپنی ہیں یہ چیز پرائی ہے

اب مرنا بھی مشکل ہے وہ پوچھ رہے ہیں بالیں پر
کس نے اس کو یاد کیا ہے کیسی ہچکی آئی ہے

تم آخر کیوں کڑھتے ہو طالبؔ کے رونے دھونے پر
دنیا اس پر ہنستی ہے سب کہتے ہیں سودائی ہے