EN हिंदी
ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف | شیح شیری
sari KHilqat ek taraf thi aur diwana ek taraf

غزل

ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف

اختر شمار

;

ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف
تیرے لیے میں پاؤں پہ اپنے جم کے کھڑا تھا ایک طرف

ایک اک کر کے ہر منزل کی سمت ہی بھول رہا تھا میں
دھیرے دھیرے کھینچ رہا تھا تیرا رشتہ ایک طرف

دونوں سے میں بچ کر تیرے خواب و خیال سے گزر گیا
دل کا صحرا ایک طرف تھا آنکھ کا دریا ایک طرف

آگے آگے بھاگ رہا ہوں اب وہ میرے پیچھے ہے
اک دن تیری چاہ میں کی تھی میں نے دنیا ایک طرف

دوسری جانب اک بادل نے بڑھ کر ڈھانپ لیا تھا چاند
اور آنکھوں میں ڈوب رہا تھا دل کا ستارا ایک طرف

وقت جواری کی بیٹھک میں جو آیا سو ہار گیا
اخترؔ اک دن میں بھی دامن جھاڑ کے نکلا ایک طرف