ساقیا طنز نہ کر چشم کرم رہنے دے
میرے ساغر میں اگر کم ہے تو کم رہنے دے
عشق آوارہ کو محروم کرم رہنے دے
اپنے ماتھے پہ شکن زلف میں خم رہنے دے
تو زمانے کو مٹاتا ہے مٹا دے لیکن
عشق کی راہ میں کچھ نقش قدم رہنے دے
میرے الجھے ہوئے حالات غنیمت ہیں مجھے
دل کی باتوں میں نہ آ پرسش غم رہنے دے
آشیاں پھونک کے تکمیل چراغاں کر دے
فصل گل آئی ہے گلشن کا بھرم رہنے دے
زندگی غم سے سنورتی ہے نکھرتی ہے قمر
زندگی کو یوں ہی آلودۂ غم رہنے دے

غزل
ساقیا طنز نہ کر چشم کرم رہنے دے
قمر مرادآبادی