ساقی کی ہر نگاہ میں صہبا تھی جام تھا
کل شغل مے کشی کا ہمیں اذن عام تھا
ہم کشتۂ خزاں سہی اے دوستو مگر
آسودۂ بہار ہمارا ہی نام تھا
میرے بغیر آج وہ کتنے ہیں شادماں
جن کو مرے فراق میں جینا حرام تھا
دیکھا جو میکدے میں اسے اور بڑھ گیا
میری نظر میں شیخ کا جو احترام تھا
ہم بے نیازیوں کا گلا تجھ سے کیا کریں
اے دوست اپنا جذبۂ الفت ہی خام تھا
ان سے نظر ملی کہ نئی زندگی ملی
ان کی نگاہ ناز میں کیسا پیام تھا
دار و رسن کو چوم کے قربان ہو گیا
جانبازؔ با لیقین یہ تیرا ہی کام تھا
غزل
ساقی کی ہر نگاہ میں صہبا تھی جام تھا
ستیہ پال جانباز