سانسوں کو کرب زیست غم بے پناہ کو
کس کس کو مطمئن میں کروں خواہ مخواہ کو
سورج کے پار دیکھ سکو گر مری طرح
تب جا کے پاؤ گے مری حد نگاہ کو
میں اس فریب گہہ میں وہ آدم گزیدہ ہوں
ڈھونڈے ہے جو اندھیروں میں جائے پناہ کو
اپنا نہ میں ہوا تو بھلا کون ہے مرا
اپنائے کیوں کوئی کسی گم کردہ راہ کو
میں حادثوں کی بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوا
آواز دے رہا ہوں کسی خیر خواہ کو
سایہ بھی ہم قدم نہ مرا ہو اسی لیے
خاطر میں لایا میں نہ کسی انتباہ کو

غزل
سانسوں کو کرب زیست غم بے پناہ کو
حمدون عثمانی