EN हिंदी
سانسوں کو کرب زیست غم بے پناہ کو | شیح شیری
sanson ko karb zist gham-e-be-panah ko

غزل

سانسوں کو کرب زیست غم بے پناہ کو

حمدون عثمانی

;

سانسوں کو کرب زیست غم بے پناہ کو
کس کس کو مطمئن میں کروں خواہ مخواہ کو

سورج کے پار دیکھ سکو گر مری طرح
تب جا کے پاؤ گے مری حد نگاہ کو

میں اس فریب گہہ میں وہ آدم گزیدہ ہوں
ڈھونڈے ہے جو اندھیروں میں جائے پناہ کو

اپنا نہ میں ہوا تو بھلا کون ہے مرا
اپنائے کیوں کوئی کسی گم کردہ راہ کو

میں حادثوں کی بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوا
آواز دے رہا ہوں کسی خیر خواہ کو

سایہ بھی ہم قدم نہ مرا ہو اسی لیے
خاطر میں لایا میں نہ کسی انتباہ کو