روٹھے ہوؤں کو اپنے منانے چلے تھے ہم
بگڑی ہوئی تھی بات بنانے چلے تھے ہم
کیا کہئے آسمان تھا وہ یا زمین تھی
جس پر گلوں کا نقش بٹھانے چلے تھے ہم
دیکھا انہیں قریب سے ہم نے تو رو دیے
جن بستیوں کو آگ لگانے چلے تھے ہم
دنیا کے ناز دیکھ کے حیران رہ گئے
گویا اسی کے ناز اٹھانے چلے تھے ہم
ویرانیوں نے بڑھ کے گلے سے لگا لیا
لے کر دلوں میں کیسے خزانے چلے تھے ہم
دیکھا جو آپ اپنے لئے غیر ہو گئے
غیروں کو آئنہ تو دکھانے چلے تھے ہم
غزل
روٹھے ہوؤں کو اپنے منانے چلے تھے ہم
خورشید الاسلام

