روح کو تڑپا رہی ہے ان کی یاد
درد بن کر چھا رہی ہے ان کی یاد
عشق سے گھبرا رہی ہے ان کی یاد
رکتے رکتے آ رہی ہے ان کی یاد
وہ ہنسے وہ زیر لب کچھ کہہ اٹھے
خواب سے دکھلا رہی ہے ان کی یاد
میں تو خودداری کا قائل ہوں مگر
کیا کروں پھر آ رہی ہے ان کی یاد
اب خیال ترک ربط و ضبط ہے
خود بخود شرما رہی ہے ان کی یاد
غزل
روح کو تڑپا رہی ہے ان کی یاد
شکیل بدایونی