روح کو اپنی تہہ دام نہیں کر سکتا
میں کبھی صبح سے یوں شام نہیں کر سکتا
عمر بھر ساتھ تو رہ سکتا ہوں تیرے لیکن
اپنی آنکھیں میں ترے نام نہیں کر سکتا
تجھ کو اتنا نہیں معلوم مرے بارے میں
شرط رکھ کر میں کوئی کام نہیں کر سکتا
مجھ پہ ہر اک سے محبت کی یہ تہمت نہ لگا
میں کہ اس جذبے کو یوں عام نہیں کر سکتا
اس قدر الجھا ہوا رہتا ہوں خود سے کہ روشؔ
دو گھڑی کو بھی میں آرام نہیں کر سکتا
غزل
روح کو اپنی تہہ دام نہیں کر سکتا
شمیم روش