روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر
اس نے چڑھائیں تیوریاں میرا قرار دیکھ کر
قصد گلہ نہ تھا مگر حشر میں شوق جوش سے
ہاتھ مرا نہ رک سکا دامن یار دیکھ کر
دیکھ کے ایک بار انہیں دل سے تو ہاتھ دھو چکے
دیکھیے کیا گزرتی ہے دوسری بار دیکھ کر
آتے ہیں وہ تو پہلے ہی رنج سے صاف ہو رہوں
آ کے کہیں پلٹ نہ جائیں دل میں غبار دیکھ کر
وصل سے گزرے اے خدا ہاں یہ شگون چاہیئے
صبح کو ہم اٹھا کریں روئے نگار دیکھ کر
کعبہ کو جا نہ شوقؔ ابھی نیت زندگی بخیر
ہم بھی چلیں گے تیرے ساتھ اب کی بہار دیکھ کر

غزل
روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر
شوق قدوائی